*انوار چشتیہ کی برسات اور کرم بندہ نوازی*
*( روداد سفر )*
تحریر از قلم خود
روحانی عامل پیر طریقت مولانا محمودالحسن قادری رضوی چشتی نظامی سہروردی نقشبندی
مالیگاؤں
*7588792786*
اس سال ماہ فروری میں جب میں نے گلبرگہ شریف کا سفر کیا تو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ سرکار بندہ نواز علیہ الرحمہ مجھے نوازنے کیلئے بلا رہے ہیں
مجھے سرکار نے عطاء اویسی سے بھی نوازا اور دیگر سرکاران چشتیہ سے بھی دلوایا
یہی وجہ رہی کہ دو مہینہ میں تین بار دربار خواجہ خواجگان میں حاضری ہوئی جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں
سرکار صوفی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں دو بار حاضری ہوئی
رون شریف میں حضرت شاہ بدر بن شاہ عبداللطیف قریشی کی بارگاہ میں بھی باریابی نصیب ہوئی
کھاٹو شریف میں سرکار خواجہ سید شمس الدین سمن دیوان علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں دو بار حاضری کی سعادت ملی
حضرت بابا ابو اسحق مغربی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں دو بار حاضری ہوئی
سرواڑ شریف میں شہزادہ چشت و سنجر حضرت خواجہ فخرالدین چشتی سنجری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھی اور ان کے ماموں جان کی بارگاہ میں بھی حاضری نصیب ہوئی
ان کے علاوہ دہلی میں سلطان الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی علیہ الرحمہ اور حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ
خواجہ بزرگ کے خلیفہ ارشد و اول حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کعکی اوشی علیہ الرحمہ کے آستانے پر ہی حضرت خواجہ فخرالدین چشتی علیہ الرحمہ اور حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ کی بارگاہوں میں بھی شرف باریابی حاصل ہوئی
یقیناً یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے
یہ ان کی عطائیں ہیں کہ اس فقیر بے مایہ کو اپنے دربار میں بلا کر نوازتے ہیں
دہلی میں ہی
حضرت خواجہ مخدوم نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلوی کا استانہ بھی مرجع خاص و عام ہے
بلکہ یہ ان کے چراغ کی ضو فشانیاں ہیں کہ اس علاقے کا نام ہی روشن چراغ ہے
جو میٹرو کے اسٹیشن حوض خاص سے بہت قریب ہے
اس دربار کی حاضری نے تو ماشاءالله میرے دل کی دنیا ہی تبدیل فرمادی
اس آستانے پر حاضری کے وقت یک بیک بے ساختہ میری زبان پر یہ شعر جاری ہو گیا کہ
*دل مرا روشن کرو کہ آپ ہیں روشن چراغ*
*میرے دل کی روشنی کا آپ ہی ساماں کرو*
*آپ بھی محمود ہو میں آپ کا ہمنام ہوں*
*کچھ عطا کر کے مجھے بھی صاحب عرفاں کرو*
یہ دونوں شعر وہیں بیتھے بیٹھے خود بخود میری زبان سے ادا ہونے لگے
کافی دیر تک پڑھنے کے بعد حضرت نے کرم فرمایا
مجھے نوازا جیسی وہ اپنی شان سے نوازتے ہیں
اور مجھے
*محمود ضیاءالدین*
نام دیا
اس طرح میرا مدعا پورا ہو گیا اور میری روحانی ترقی ہو گئی
اسے بھی میں سرکار بندہ نواز کی بندہ نوازی ہی مانتا ہوں
خود بھی دیا
اپنے مرشدان گرامی سے بھی دلوایا
اور تو اور اس سال کی شب برات میرے لئے زندگی کی سب سے عظیم شب برات رہی کہ اس سال یہ مبارک و عظیم شب دربار خواجہ میں بسر ہوئی
نماز مغرب سے قبل لاحول شریف کا عمل بھی اسی دربار میں ادا کیا
اس امید پر کہ الله کریم اپنے کرم خآص سے کام لیتے ہوئے بزرگان دین کے وسیلے سے میری زندگی سے تمام خطاؤں کو یکسر مٹا دے
میرے نیک اعمال کو مقبول فرما لے
بعد نماز مغرب صلوۃ الاوابین بھی دربار خواجہ کی مقبول ترین مسجد *صندلی مسجد* میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی
بعد نماز عشاء
اوراد و وظائف میں مشغول رہا
اور نصف شب کے بعد اولیاء مسجد کے ممبر کے پاس بیٹھ کر سورہ مزمل شریف کا عمل
ان حضرات کیلئے کیا جنہوں نے اولاد کیلئے مجھ سے یہ عمل کرنے کی گزارش کی تھی
اس طرح اس سال کی شب برات میرے لئے بہت عظیم ثابت ہوئی
خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری علیہ الرحمۃ نے مجھے اتنا نوازا اتنا نوازا کہ جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا
*در کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا ؟؟؟*
مجھ پر حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی عطاء اویسی کا احسان ہیکہ دو مہینہ میں تیسری بار اجمیر مقدس کی حاضری نصیب ہوئی ہے
الله کا لاکھوں لاکھ احسان کہ خواجہ بندہ نواز نے عطاء اویسی سے نوازا اور خواجہ بزرگ خواجہ خواجگان عطاء رسول معین الدین چشتی حسن سنجری علیہ الرحمۃ نے انوار چشتیہ کی برسات فرماکر مجھے سیراب فرمادیا
*اس کرم کا کروں کا شکر کتنا ادا*
بہر حال آج کا دن میری روحانی زندگی کا بہت اہم سنگ میل ثابت ہوا
ناگور شریف کھاٹو شریف رون شریف سرواڑ شریف اجمیر شریف کی زیارتوں سے فارغ ہوا تو دہلی میں حاضری ہوئی جیسا کہ اوپر مرقوم کیا
دہلی سے چشتیہ نوازشات سے سیرابی کے بعد سیوان اور پٹنہ( بہار ) جانا ہوا
جہاں سلسلہ چشتیہ کے ہی ایک عظیم بزرگ حضرت خواجہ کمال الدین احمد یحیی منیری اور ان کے پوتے حضرت خواجہ شاہ دولت احمد یحیی منیری علیھم الرحمہ آرام فرما ہیں
وقت کی تنگی کے سبب بہار شریف میں حضرت شاہ شرف الدین احمد یحیی منیری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری نہ ہو سکی
لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ منیر شریف میں ان کے والد گرامی کی بارگاہ میں تو حاضری ہو گئی
انشاءالله وہ بھی کرم فرمائیں گے
زندگی سلامت رہی تو اس بارگاہ میں بھی باریابی ہو گی
سیوان سے الہ باد آیا
جو میرے آباء و اجداد کا وطن ہے
وہاں ایک دن رک کر اپنی بہن اور دیگر اہل خاندان سے ملاقات کیا
اور پھر ایک مہینہ کی طویل مسافرت کے بعد اپنے گھر لوٹا
اس سفر میں الحمدلله بہت سارے لوگوں سے روابط بڑھے
کچھ لوگوں کے مسائل اور پریشانیوں کو سن کر شریعت و طریقت کی روشنی میں ان کا روحانی علاج اور حل بتایا اور ممکن طریقے سے روحانی علاج بھی کیا
الحمد لله اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہیکہ اس سفر میں مجھ پر گرمی کے ایام میں انوار چشتیہ کی برسات ہو رہی تھی
اور میں اپنے پاؤں کی تکلیف کو بھول کر اس برسات سے سیراب ہو رہا تھا
الحمدلله میری روحانی ترقی میں کسقدر اضافہ ہوا شاید ہی کوئی اسے الفاظ میں بیان کر سکے
بس اتنا ہی کہہ سکوں گا کہ
*بوئے گل خود بگوید نہ کہ عطار بگوید*
آخر میں
*لئن شکرتم لازیدنکم*
کے تحت ان تمام احباب و مخلصین کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے اس سفر میں مجھے اپنی محبتوں سے نوازا
محترم مولانا رمضان علی اشرفی صاحب قبلہ
اور ان کے والد گرامی اور چچا حضرات
اہلیان جاروڈا کلاں
میں جناب ذاکر بھائی
الله بخش بھائی
سلیم بھائی اور دیگر محبین و مخلصین
رون شریف کے
جناب عبدالرشید صاحب ناگوری ، جناب ہارون بھائی صاحب
ناگور شریف کے جناب حاجی امیرالدین صاحب
سرواڑ شریف کے محترم جناب ڈاکٹر اسحٰق انصاری صاحب اجمیر کلینک سرواڑ شریف
سیوان بہار کے محترم جناب سید آزاد احمد صاحب
جناب سید پرویز صاحب دہلی
جناب سید مشتاق صاحب کڑیا گاؤں
حضرت مولانا افتخار احمد قادری ہمدم سیوانی بڑھریا بازار سیوان
عزیزم جناب افروز عالم صاحب ایڈمن ذکر نعت گروپ
اور سائٹ ہولڈر
zikrenaat.In
*نوٹ: جس کسی کو اس مضمون کے کسی اقتباس سے شک ہو وہ اپنے شک کا علاج کرے*
*بزرگوں کی عطاؤں میں شک نہ کرے اہل روحانیت مراقبہ و مکاشفہ سے اس کی سچائی جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں*
No comments:
Post a Comment